Published: 26-07-2023
اسلام آباد: حکومت اپنے اتحادیوں کو منانے میں کامیاب ہوگئی،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے انتخابات ترمیمی بل 2023 پیش کیا۔اجلاس میں نگراں حکومت کے اختیارات بڑھانے سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شق 230 کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔وزیر قانون نے کہا کہ کل نگراں حکومت کے اختیارات کے معاملے پر ایشو بنا لیکن آج سردار ایاز صادق کی سربراہی میں کمیٹی کا ایک وضاحتی اجلاس ہوا ہے جس میں نگراں حکومت کے مزید وضاحت کر دی گئی ہے اور اب تمام ترامیم پر اتفاق ہوگیا ہے۔سینیٹر مشتاق احمد خان نے بل میں ترمیم پیش کی جو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کر دی۔رضا ربانی پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے ایک بار پھر نگراں حکومت سے متعلق شق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے الیکشن ایکٹ میں دیگر ترامیم پر کوئی اختلاف نہیں ہے، سیکشن 230 میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جس پر اختلاف تھا اور وزیر قانون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سیکشن 230 سے کچھ شقیں نکال دی گئی ہیں اور کچھ کو بہتر کر لیا گیا ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ نگران حکومت کے اختیارات کو مزید بڑھانا درست نہیں ہے، پہلی بار ہوا کہ وزیراعظم کو خود کئی بار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر سے ٹیلی فون پر بات کرنی پڑی، نئی نئی روایات رکھی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی سامراج کے کہنے پر ہمیں اپنی اسکیم سے ہٹنا پڑ رہا ہے، اب نیشنل انٹرسٹ کی جگہ اکنامک اور سیکیورٹی انٹرسٹ نے لے لی ہے۔پی پی پی کے سینیٹر رضا ربانی نے نگراں وزیر اعظم کو آئی ایم ایف طرز کے معاہدوں جیسے اختیارات دینے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ جب بھی نگرانوں نے ایسے معاہدے کیے اس کے نتائج بھگتنا پڑے، پاکستان کے وزیر اعظم کے اسٹیٹس کے خلاف تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر سے بات کریں اور یہ کہاں ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سیاسی جماعتوں کے پاس جاکر پوچھیں کہ کیا وہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی سپورٹ کریں گے۔ آئی ایم ایف کا سیاسی جماعتوں سے پوچھنا پاکستان کی خود مختاری میں مداخلت ہے۔انہوں نے کہا کہ آج نگرانوں کو جو اختیارات دیے جا رہے ہیں وہ آپ منتخب وزیر اعظم کو بھی نہیں دے سکتے، سامراج کے بازو مروڑنے کے طریقے بدل گئے ہیں اور آج ہمیں آئینی اسکیم بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ بتایا جائے نجکاری کس ڈے ٹو ڈے بزنس میں آتی ہے، جس نگراں نے 60 روز میں انتخابات کرانے ہیں اس کو نجکاری کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ معین قریشی کے آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتائج ہم بھگت چکے ہیں، میں نگراں وزیر اعظم کو سیکشن 230 کے اختیارات دینے کی مخالفت کرتا ہوں اس لیے سیکشن 230 کی ترمیم کو واپس لیا جائے۔سینیٹر علی ظفر اضافی اختیارات کی مخالفت کرنے والے تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات ترمیمی بل میں تین ترامیم شامل تھیں، بل میں دو ترامیم صرف پی ٹی آئی کے لیے شامل کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت منتخب حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی، نگراں کو منتخب حکومت کے اختیارات دینا آئین کا قتل اور آئین کی خلاف ورزی ہے، نگراں حکومت کو اختیار دینے والے خواجہ آصف خود نگراں حکومت کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے۔ نگراں حکومت کے اختیار سے متعلق شق میں ترمیم کرنا کافی نہیں اور اگر نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق نہ ختم کی تو سپریم کورٹ اڑا دے گی۔سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کل ایسی ترامیم پارلیمنٹ میں لائی گئی جس سے پارلیمانی جمہوریت کا سارا تصور تبدیل ہو جائے گا، اس ترمیم کا وزیر قانون نے بھی اعتراف کیا ہے اور نگراں حکومت کو مستقل سیٹ اَپ نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا کہ انتخابی ترمیمی بل میں کی گئی ترامیم کافی نہیں ہیں اگر پارلیمنٹ نے ترامیم مسترد نہیں کیں تو دس دن بعد سپریم کورٹ کر دے گی، نگراں حکومت ایسے اقدامات نہیں کر سکتی جسے بعد میں تبدیل نہ کیا جا سکے، نگراں حکومت کا کام صرف شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانا ہے۔انتخابی اصلاحات کمیٹی اجلاس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق 230 پر اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں شق 230 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ اب نگراں حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدوں کا اختیار ہوگا اور وہ پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرسکے گی۔ ترامیم کے نتیجے میں نگراں حکومت کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی، البتہ پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی۔