Published: 08-10-2024
مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا جہاں قومی قیادت نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اقوام متحدہ کی رکنیت کا مطالبہ کیا۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے اور غزہ و فلسطین کے معاملے پر ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔آل پارٹیز کانفرنس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان سمیت اور ملک کی دیگر سیاسی قیادت بھی شریک ہوئی۔اس سلسلے میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مشترکہ قرارداد پیش کی جس میں اسرائیل کے نسل کشی پر مبنی اقدامات کی سخت مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی کوششوں کو دگنا کرے گا۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ یاسر عرفات یہاں آتے جاتے رہے، بینظیر بھٹو کے ساتھ میں ان سے ملتا رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال پہلے اسرائیل نے غزہ اور فلسطین پر جارحیت کی، اسرائیل کے اقدامات دنیا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کے علاوہ لبنان پر بھی جارحیت کر رہا ہے۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اسرائیلی جارحیت کے باعث 41 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ مکمل تباہ ہوچکا ہے۔صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے، ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔انکا کہنا تھا کہ اسرائیل تمام قبضہ کیے گئے عرب علاقوں سے واپس جائے، عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام ہوئی ہے۔انکا کہنا تھا کہ قرارداد پاکستان کے تناظرمیں ہم اسرائیل کو آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ قائداعظم نے 1940 میں اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا، پاکستان نے کبھی بھی اسرائیل کے وجود کوتسلیم نہیں کیا۔انکا یہ بھی کہنا کہ ہماری واضح پوزیشن ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز اور قابض ریاست ہے، قائداعظم نے کہا تھا پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے سیاسی طور پر مظاہرے کیے ہیں، لیکن مزید آگے بڑھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔انکا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ آگے بڑھ کر سفارتی طور پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، پاکستان کا پیغام تمام اسلامی ممالک تک پہنچائیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اعلان کریں کہ پاکستان کی تمام جامعات میں فلسطین کے بچوں کو اسپانسر کریں، آج کوئی عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔انکا کہنا تھا کہ مذمت ہم کرچکے، مرمت ہم کر نہیں سکتے، ہمیں آج عملی اقدامات کا اعلان کرنا چاہیے۔آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں خالد مگسی نے کہا کہ ہمارے چیخنے سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللّٰہ کے آگے ہم قیامت کے دن کس منہ سے کھڑے ہوں گے؟ ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔خالد مگسی کا کہنا تھا کہ فلسطین کے لوگ نقصان میں نہیں، وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری سالک حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے جو یو این میں تقریر کی اس کا بھی بہت اثر ہوا۔انکا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں کھل کر بات کرنی چاہیے، فلسطین میں بچے شہید ہو رہے ہیں، مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف ہمیں سوچنا چاہیے۔انکا کہنا تھا کہ کسی بھی جنگ میں اتنی خواتین اور بچے شہید نہیں ہوئے۔ حقائق دیکھ کر ہمیں اس متعلق کوئی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عبدالعلیم خان نے کہا کہ اسرائیلی بربریت کو ایک سال ہوچکا ہے۔ فلسطین کےلیے ہم نے واقعی کچھ نہیں کیا، ہم جو کرسکتے تھے وہ بھی نہیں کیا۔انکا کہنا تھا کہ یو این کے اجلاس کے دوران بھی فلسطینی بچوں کا قتل عام جاری تھا۔ دنیا بےحس ہوچکی ہے۔ ہم بہت ساری چیزوں میں بٹے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان ممالک کے پاس کچھ نہیں بچا جو آپس میں ٹوٹ گئے تھے، آج ان ممالک کو دیکھیں جہاں فتنا فساد تھا۔عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ جہاں جہاں اسرائیل نے حملہ کیا وہ ممالک معاشی طور پر مستحکم نہیں تھے، بٹے ہوئے تھے۔ سیاست ضرور کریں لیکن ملک کو پہلے رکھیں۔