Published: 15-02-2023
اسلام آباد: صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئی ایم ایف کی شرائط پر بنائے جانے والے مالیاتی آرڈنینس کو فوری طور پرمنظور کرنے سے انکار کر دیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی ملاقات ہوئی جس میں وزیر خزانہ نے صدر مملکت کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدے پر بریفنگ دی، جس پر صدر مملکت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر مذاکرات کیلئے حکومتی کوششوں کو سراہا۔صدر مملکت نے کہا کہ ریاست ِپاکستان حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہے گی۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدے کو پورا کرنے کیلیے حکومت ایک آرڈیننس جاری کرکے ٹیکسوں کے ذریعے اضافی ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔صدر مملکت نے اضافی ٹیکس نافذ کرنے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والے مالیاتی آرڈیننس کو فوری طور پر منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسحاق ڈار کو جواب دیا کہ ’مالیاتی بل کوقومی اسمبلی سے منظور کرائیں‘۔صدر مملکت نے کہا کہ اس اہم موضوع پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا زیادہ مناسب ہوگا، پارلیمنٹ کا سیشن فوری طور پر بلایا جائے تاکہ بل کو بلاتاخیر قانون بنایاجاسکے۔ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے طے پانے والی ریونیو اقدامات کو صدارتی آرڈنینس کے ذریعے نافذ کرنا چاہتی تھی، صدرمملکت کے واضح انکار کے بعد قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلا کر بل منظور کرایا جائے گا۔ترمیمی آرڈیننس کیا ہے؟واضح رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ریونیو بڑھانے کیلیے ترمیمی آرڈیننس تیار کیا، جس کے تحت مجموعی طور پر 200 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔ آرڈیننس کے تحت بینکوں میں ٹرانزیکشن پرنان فائلرز پر 0.60 فیصد ٹیکس عائد کی جائے گی جبکہ بینکوں کے فارن ایکسچینج سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے اور شوگر ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے، ایک ہزار سگریٹ پر ٹیکس میں 200 روپے سے چار سو روپے تک اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بعد آرڈیننس کو منظوری کیلیے صدر مملکت کو بھیجا تھا۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے نئے قرض کے پروگرام کیلیے پاکستان کو گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ٹیکس ریونیو بڑھانے کی شرط عائد کی ہے۔