بارکھان واقعہ: صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کیتھران گرفتار

Published: 23-02-2023

Cinque Terre

کوئٹہ: بلوچستان کے علاقے بارکھان سے خاتون اور دو بیٹوں کی لاشیں ملنے کے بعد سے لواحقین نے کوئٹہ کے ریڈ زون میں گزشتہ دو روز سے دھرنا دیا ہوا ہے اور چھ مطالبات پیش کردیے ہیں، پولیس نے صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران کو گرفتار کرلیا۔پولیس حکام کے مطابق صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران کوبارکھان میں تین افراد قتل کیس کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے، انہیں ضابطے کی کارروائی پوری کرکے ڈی آئی جی پولیس آفس کوئٹہ سے حراست میں لے لیا گیا۔ حکام کے مطابق واقعے کی مزید تحقیقات کرائم برانچ کرے گی، ملزم کو کل عدالت میں پیش کر کے تحقیقات کیلیے جسمانی ریمانڈ مانگا جائے گا۔کوئٹہ کے ریڈ زون میں تین لاشوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے لواحقین کا الزام ہے کہ مقتولین کو صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران نے قتل کیا جبکہ اسی گھرانے کے پانچ افراد بھی اُن کے عقوبت خانے میں قید ہیں۔ واضح رہے کہ خاتون کی چند روز قبل سوشل میڈیا پر ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ قرآن مجید کا واسطہ دے کر رہائی کا مطالبہ کررہی تھی اور بتا رہی تھی کہ وہ اور بچے کیتھران کی نجی جیل میں قید ہیں۔بعد ازاں خاتون اور اُن کے دو بیٹوں کی لاشیں کنویں سے برآمد ہوئیں، جس کے بعد مری قبیلے کے لوگوں نے احتجاج کیا اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ پہنچ کر دھرنا دیا۔بارکھان واقعے کی گونج صوبائی اسمبلی، سینیٹ میں بھی رہی اور اراکین نے واقعے کی شفاف تحقیقات سمیت ملوث عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی تشکیل دی جبکہ پولیس نے گزشتہ شب کوئٹہ میں عبدالرحمان کیتھران کے گھر پر چھاپہ بھی مارا تاہم کسی کی بازیابی ہوسکی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔بارکھان واقعے پر بلوچستان بار کونسل نے عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کیا۔ کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاری رحمت اللہ نے کہا کہ بارکھا ن واقعہ افسوسناک ہے، عوام کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، مظلوم عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے جدو جہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔دوسری جانب بارکھان واقعے پر کوئٹہ میں قبائلی عمائدین نے جرگے کا انعقاد کیا، جس کی صدارت خان آف قلات کے بھائی سینیٹر پرنس آغا عمر احمدزئی نے کیا جبکہ جرگے میں پشتون اور بلوچ قبائل کے سرداران شریک ہوئے۔جرگے میں شریک عمائدین نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت کو 2 روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے تمام شرکاء کے تمام مطالبات تسلیم کئے جائیں۔پرنس آغا عمر احمد زئی نے اپیل کی کہ بلوچستان کے تمام قبائل کوئٹہ میں اکٹھے ہوکر دھرنا شرکاء کے احتجاج کا حصہ بن جائیں۔دوسرے روز بھی دھرنا، لواحقین نے 6 مطالبات پیش کردیے بارکھان واقعے میں ماری جانے والی خاتون اور اُن کے دو بیٹوں کے ہمراہ ریڈ زون میں لواحقین نے دوسرے روز بھی درھرنا دیا اور چھ نکات پیش کردیے۔ لواحقین نے مطالبہ کیا کہ سردار عبد الرحمان کیتھران کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، دیگر پانچ لاپتہ افراد کو بازیاب کروایاجائے۔لواحقین نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے، مطالبات تسلیم نہ ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔اُدھر ایم پی اے ملک سکندر ،زابد ریکی ،شکیلہ نوید دہوار،احمد نواز اور ملک نصیر شاہوانی کی دھرنے میں آمد ہوئی جہاں اراکین اسمبلی نے بارکھان واقعے کی مذمت کرتے ہوئے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ڈیرہ بگٹی میں بھی مظاہرہ بارکھان واقعے کے خلاف ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی اور پیر کوہ میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، مظاہرین نے سردار عبدالرحمن کھیتران کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور خان محمد مری کے دیگر پانچ بچوں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کیخلاف درج اُدھر بلوچستان کے علاقے دکی میں بارکھان واقعے کی ایف آئی آر ایس ایچ او بارکھان کی مدعیت میں نامعلوم افراد کیخلاف درج کرلی گئی۔بلوچستان پولیس کا اعلامیہ بلوچستان پولیس کا کہنا ہے کہ آئی جی پولیس بارکھان واقعے کی اپنی نگرانی میں تفتیش کرارہے ہیں، خاندان کے بقیہ افراد کی بازیابی کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں ، جلد بہتر پیش رفت کی توقع ہے، پولیس کی خصوصی ٹیمیں خفیہ اطلاعات کی بنا پر مغویان کی بازیابی کے لئے روانہ ہوگئیں ہیں۔پولیس ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ رات سردار عبدالرحمن کھیتران کی رہائش گاہ واقع کوئٹہ اور بارکھان کی پولیس نے جامع تلاشی کی، بااثر شخصیات بھی اگر معاملے میں ملوث پائے گئے تو قانون کے یکساں نفاذ کو یقینی بنایا جائے گا، کسی بھی بااثرشخص کو اس کی حیثیت کی وجہ سے رعایت نہیں دی جائے گی، صوبائی حکومت نے معاملے کی چھان بین کیلئے پہلے ہی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، غفلت اور لاپروائی کے مرتکب افسران کے خلا ف سخت کاروائی ہو گی۔بلوچستان پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ سانحہ بارکھان کا کیس کرائم برانچ کو منتقل کردیا گیا ہے جبکہ کمانڈنٹ بلوچستان کانسٹیبلری سلمان چوہدری کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ شامل ہیں۔

اشتہارات