Published: 25-06-2023
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کی شرائط کے مطابق پانچ بڑے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے آئندہ مالی سال2023-24 کے بجٹ کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کو حتمی شکل دیدی ہے۔ترمیمی فنانس بل کے ذریعے بجٹ میں مجموعی طور پر عوام سے 415 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کیلئے ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح میں ڈھائی فیصد، کھاد پر پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سمیت دیگر اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مجموعی طور پر عوام سے 415 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کی تجویز پے، جس کیلئے ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہےماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد یعنی سالانہ 24 لاکھ سے زائد آمدن پر انکم ٹیکس 2.5 فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق کھاد پر بھی پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویزہے، کھاد پر ایکسائز ڈیوٹی سے 35 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ پراپرٹی کی خرید وفروخت پر ایک فیصد ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس ایک سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز ہے پراپرٹی کی خرید و فروخت سے مزید 45 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اس کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پانچ بڑے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ٹیکس ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔پٹرولیم مصنوعات پر لیوی 50 کے بجائے 60 روپے کی جائے گی جبکہ جاری اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی کا فیصلہ بھی کیا جائے گا، نئے ٹیکس اقدامات کا حجم 223 ارب سے بڑھا کر 438 ارب کرنے جبکہ بی آئی ایس پی بجٹ 400 ارب سے بڑھا کر466 ارب مقرر کردی گئی۔اسی طرح 3 ہزار 200 ارب مالیت کے ٹیکس مقدمات نمٹانے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے گی، پنشن بل 761 ارب سے بڑھ کر 801 ارب تک پہنچ جائے گا، بجٹ میں صوبوں کا حصہ 5276 ارب سے بڑھ کر 5399 ارب ہوگیا۔ اگلے سال وفاقی حکومت کے اخراجات بڑھ کر 14 ہزار 480 ارب ہو جائیں گےْ