آج کل تو بس مَطلب زندہ ہیں

Published: 30-04-2024

Cinque Terre

بے حیائی و عریانی کا ٹَھاٹِھیں مارتا ہوا سمندر آج ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ فنکشن، بیوٹی پارلر اور شادی بیاہ کے نام پر عورتوں کی جنسی نمائش فیشن کا روپ دھار چکی ہے۔ ایک وہ دور تھا، جب ہم اپنے بزرگوں سے سنتے تھے کہ عورتیں لباس پہن کر بھی ننگی ہوں گی۔ اس وقت ہم ایسی باتوں پر مضحکہ اڑاتے ہوئے لطف لیتے تھے۔ آج وہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ ہمیں بزرگ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ عن قریب ایسا دور آنے والا ہے کہ انسان چند سکوں کی خاطر صبح کو مسلمان شام کو کافر ہوتا پھرے گا۔ اس دور میں ایمان بچانا اس قدر دشوار ہوگا کہ جیسے ہاتھوں پہ جلتا ہوا بڑا سا انگارا رکھنا۔ مسجدیں گلی گلی میں اور عالی شان ہوں گی لیکن دل ایمان کی حلاوت سے خالی ہوں گے۔ آپ اس سارے پس منظر پر غور کریں تو بہ خوبی علم ہو گا کہ پہلے مسجدیں کچی اور ایمان پکے تھے۔آج پچیس کروڑ کی آبادی میں اعداد و شمار کے مطابق چار کروڑ افراد بھیک مانگنے پر مجبور کیوں ہوئے؟ کیا سب کو روٹی نہیں ملتی؟، کیا سب کے گھر نہیں ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں، دنیاوی مفادات اور نفسانی خواہشات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ جب تک ہم عالی شان، محلات، کوٹھیاں، بینک بیلنس اور گاڑیوں کے مالک نہ بن جائیں ہمیں چین نہیں آتا۔ ہماری  بے چینی اور بھیک مانگنے کی سب سے بڑی وجہ مجبوری نہیں، بل کہ حب جاہ ہے۔ہمارے بزرگ تو دس دس دن کی باسی روٹی کھا کر شکر خدا کرکے سکون کی زندگی گزار کر کچے مکانوں میں پختہ ایمان لے کر چل دیے۔ آج ہم ہر سہولیات گھر کی دہلیز تک چاہتے ہیں۔ سکون چاہتے ہیں، عیاشی چاہتے ہیں، لیکن ہمارے پلے سوائے بھیک، شرمندگی اور غلامی کے کچھ نہیں۔ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو ہمارے اکثر اجداد کے پاس فریج، پکی سڑکیں، پکے مکان، پکی مسجدیں، رنگا رنگ کھانے اور بہت سی بنیادی سہولیات نہ تھیں۔ ایک گھر میں کھانا بنتا تھا سارے محلے میں بٹتا تھا پھر بھی اگلے وقت کے لیے بچ جاتا تھا۔ لطف کی بات تو یہ ہماری دادی جان فوت ہوگئی مولا غریق رحمت کرے وہ فرمایا کرتی تھیں: " ہمارے محلے میں جس گھر میں بھی کھانا بنتا؛ سب سے پہلے محلے میں بٹتا، بعد میں گھر والے کھاتے تھے۔ اب تو نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ایک گھر میں دس دس قسم کے کھانے فریجوں میں پڑے گل سڑ جاتے ہیں اور ہم انھیں رشتے داروں اور محلے داروں میں تقسیم کرنے کی بجائے نالیوں، گلیوں، راستوں اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں پھینک کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسی بدنیتی نے ہم سے محبت، عقیدت ہم دردی، اتفاق و یگانگت اور تعلقات چھین کر ہمیں مایوسی، پریشانی، ہچکچاہٹ، نفرتوں و حقارتوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ آپ نے اکثر محسوس کیا ہوگا، جب کبھی ہم میں سے کوئی دو چار منٹ مسلسل ہنستا ہوا کوئی کسی کو دیکھ لے تو اندر سے جل کر دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہتا ہے: " مزے کرو یار "  مطلب دو چار منٹ خوشیاں منا لو، عن قریب ہم ایسا نفرتوں کا جال بچھائیں گے یا حقارتوں بھرے جملے کسّیں گے کہ اگلے دو برس تک تمھیں خوشیوں کی ہوا بھی نہ لگے گی۔ اس لیے تو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ: " انسانیت تو کب کی مرگئی، آج کل تو صرف مطلب زندہ ہیں ۔"آج میری میری اور سینہ زوری نے ہمیں پائی پائی کا محتاج بنا کر رکھ دیا۔ بہ طور مسلمان کاش ہم میری، تیری کے چکروں سے نکل کر سب اللّٰہ کی عطا کا ذہن بناتے تو آج اتنے درد ناک حالات کا سامنا نہ کر رہے ہوتے. آج پوری قوم پیٹ پوجا کی خاطر دو وقت کی روٹی کے لیے دربدر کے دھکے کھا رہی ہے۔ ہائے افسوس ہم نے بڑوں کی روش پہ چلتے ہوئے اردگرد کم ازکم کھانا باٹنے کی روایت ترک نہ کی ہوتی تو آج اتنے نامساعد حالات کا سامنا نہ ہوتا۔ اسلام ہر انسان سے بلا امتیاز پیار کا سلوک کرنا سکھاتا ہے۔مواخاتِ مدینہ کی صورت میں انصار و مہاجر کو بھائی بنا کر نبی رحمت نے امت کو چودہ سو سال پہلے درس دے دیا تھا کہ اسلام کو بچانا ہے تو نسل، فرقے اور امیر غریب کا فرق مِٹانا ہوگا۔ اب تو ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پیٹ گھر کے دس قسم کے کھانے کھا کر بھی نہیں بھرتے تو ہزار قسم کے بازاری کھانے کھا کھا کر معدے کے امراض اور السر ہونے کے بعد ہی ہم کھانے سے ہاتھ روکتے ہیں۔ زندہ قوم کا یہ دستور نہیں ہوتا جس میں حقائق سے دستبرداری اختیار کی جائے، بل کہ حالات کا مقابلہ وقت کی ناگہانی گردش کے درپے کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار و روایات کے گرتے ہوئے معیار زندگی اجیرن کر دیتے ہیں تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔مجبوری بڑے بڑے معرکے سر کروا دیتی ہے، مگر زندہ قوم مجبوری کو کمزوری نہیں جانتی نہ ہی اس کی دہلیز پر بیٹھ کے زندگی سے الجھتی ہے، بل کہ مجبوری کو طاقت بنا کر زندگی جینے کے نئے نئے راستے تلاش کرتی ہے۔

اشتہارات