Published: 08-01-2023
تہران: ایران میں مھسا امینی کی پولیس کی زیر حراست ہلاکت کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے 2 مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز کے قتل کے الزام میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی عدلیہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم پر دو افراد محمد مہدی کرامی اور سید محمد حسینی کو پھانسی دیدی گئی۔بیان کے مطابق ان دونوں نے ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر احتجاج کے دوران پیرا ملٹری فورس کے اہلکار کو برہنہ کرکے بہیمانہ تشدد کیا تھا جس سے اہلکار کی موت واقع ہوگئی تھی۔عدالت نے ان دونوں کو شفاف تحقیقات اور تمام تر قانونی چارہ جوئی مکمل کرنے کے بعد اکتوبر میں ہونے والی سماعت میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران پیرا ملٹری فورس کے ایک اہلکار روح اللہ عجمیان کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ بعد ازاں ملک کی سپریم کورٹ نے بھی پھانسی کی سزا برقرار رکھی تھی لہذا آج صبح سزا پر عمل درآمد کردیا گیا اور میتیں ضروری کارروائی کے بعد لواحقین کے حوالے کردی گئیں۔خیال رہے کہ رواں برس 8 دسمبر کو ہی محسن شکاری نامی سوشل ورکر کو عدالت کے حکم پر ’خدا کے ساتھ دشمنی‘ کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ انھیں مھسا امینی مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ایران میں گزشتہ برس 18 ستمبر کو کرد نوجوان لڑکی مھسا امینی کو حجاب درست طریقے سے نہ لینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ دوران حراست مبینہ تشدد کے باعث اس کی موت واقع ہوگئی تھی تاہم پولیس نے تشدد کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکی کی ہلاکت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا تھا۔مھسا امینی کی ہلاکت پر ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جو پوری دنیا میں پھیل گئے۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے مغربی قوتیں ہیں جو ایران کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 400 سے تجاوز کرگئی ہے جن میں 46 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں جب کہ 14 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے۔