سپریم کورٹ سیاسی الجھنوں میں نہ پڑے، اسپیکر قومی اسمبلی کا چیف جسٹس کو خط

Published: 27-04-2023

Cinque Terre

 اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے اراکین کے تحفظات پر چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کو خط لکھ دیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے، ارکان کے جزبات  اور احساسات سپریم کورٹ کے ججز تک پہنچاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ ارکان کے جذبات کی عکاسی کے لیے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو خط ارسال کروں گا جس میں ارکان اسمبلی کی ترجمانی کی جائے گی۔قبل ازیں مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برجیس طاہر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں استحقاق کمیٹی میں کسی کو بھی بلانے کا اختیار ہے ، ہم نہیں چاہتے کہ ججوں کو تحریک استحقاق کمیٹی میں بلائیں، ہم نے سابق صدر فاروق لغاری کو بھی بلایا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہماری قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارشات تھیں کہ فنڈز نہ دیئے جائیں، جب ایوان نے قرارداد اور قانون منظور کیا ہے، جو اس قرارداد یا قانون نہیں مانتا اسے توہین پارلیمنٹ کے تحت بلایا جاسکتا ہے۔برجیس طاہر نے مطالبہ کیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھیں اور صورت حال سے آگاہ کریں یا پھر چیف جسٹس ہمیں کہہ دیں کہ وہ قانون سازی کو اڑا کر رکھ رہے ہیں اور ہم گھر چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد اور قانون منظور کرنے کا اختیار صرف اس ایوان کو ہے، اس تین رکنی بینچ نے توہین عدالت و پارلیمان دونوں کی ہیں ، ہمیں اس پارلیمان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔برجیس طاہر کی تقریر پر اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان سے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو خط لکھنے کے حوالے سے رائے طلب کی، جس پر اراکین نے ڈیسک بجا کر اپنی رائے دی اور پھر راجہ پرویز اشرف نے خط لکھنے کا اعلان کیا۔راجہ پرویز اشرف کا سپریم کورٹ کے ججز کو خط بعد ازاں اسپیکر کی جانب سے بھیجے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 189 اور 190 کی رو سے  عدالتی احکامات پر عمل درآمد درکار نہیں، رقم دینے کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب وزیراعظم اور حکومت پر قومی اسمبلی کا عدم اعتماد نہیں ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ 4، 14 اور 19 اپریل کے تین رُکنی بینچ کے احکامات چار ججوں کی اکثریت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، اختیارات کی دستوری تقسیم پر پختہ یقین رکھتے ہیں، عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر ادارہ دوسرے کے اختیارکا احترام کیا جائے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازع قومی مفاد کے لئے نہایت تباہ کن ہے، قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی، آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں۔راجہ پرویز اشرف نے لکھا کہ افسوسناک ہے کہ زیادہ تر اعلی عدلیہ نے غیرجمہوری مداخلت کی توثیق کی،پاکستان کے عوام نے خون اور قربانیاں دے کر ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور ہمیشہ فتح مند ہوئے، پاکستان کے عوام نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ افسوس ہے کہ زیادہ تر عدلیہ نے اپنی بندوقوں کا رُخ سیاستدانوں کی طرف ہی رکھا ہے، آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمان کی جدوجہد سے ہی آزادی حاصل ہوئی،آرٹیکل 2 اے کی رو سے قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے، قرارداد مقاصد بلاشک وشبہ پارلیمان کی بالادستی کا اعلان کرتی ہے۔اسپیکر نے خط میں لکھا گیا ہے کہ قرارداد مقاصد بابائے قوم قائداعظم کے وژن کا مظہر ہے، قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے، اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا، عدلیہ اور انتظامیہ قومی اسمبلی کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتی، قومی اسمبلی کے مسترد کرنے کے باوجود انتظامیہ کو رقم جاری کرنے کا کہنا ٹرائی کاٹومی کے اصول کے منافی ہے،سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیا جائے۔خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی اور اجتماعی طورپر پارلیمنٹ کے دائرے میں مداخلت نہ کریں، آئین کی سربلندی، تحفظ ،دفاع اور جمہوری اقدار کے لئے ہم سب کو مل کرکام کرنا ہوگا، دستوری تقسیم کے مطابق تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانا چاہیے، آئینی دائرے میں رہنے سے ہی ریاست کو اداروں کے درمیان تنازعات سے بچایا جاسکتا ہے۔اسپیکر کے خط کی نقول اٹارنی جنرل پاکستان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔

اشتہارات